امامِ اکبر:
اللہ تعالیٰ ایسی دعا قبول نہیں فرماتا جو کسی فاسد مقصد کے لیے ہو یا کسی ناممکن چیز کے لیے کی گئی ہو۔
مقبول دعا کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ کھانا حلال ہو۔
امامِ اکبر نے کہا کہ: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے نام "المجیب" (دعا قبول فرمانے والا) کی دلالت کرنے والی آیات میں سے ہے:
{ اس کی مثل کوئی شے نہیں وہ سننے والا اور جاننے والا ہے} اور یہ آیت بھی { کہ وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی ہو} اور ایک اور آیت میں فرمایا کہ: { تین آدمیوں کی کوئی سرگوشی نہیں ہوتی مگر وہ (اللہ) چوتھا ان کے ساتھ ہوتا ہے۔}۔ ان آیات کا ظاہری مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بنفسہ ساتھ ہے، لیکن یہ تصور اللہ تعالیٰ کے حق میں محال ہے کیونکہ اللہ قدیم (ازلی) ہے اور مخلوق کی صفات اس پر عائد نہیں ہو سکتیں۔ مزید کہا کہ سنتِ نبوی میں "المجیب" کی دلالت نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے ہوتی ہے: "اے لوگو! جسے تم پکارتے ہو وہ نہ بہرہ ہے نہ غائب۔ وہ تمہارے اور تمہارے اونٹوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔"
یہ حدیث زور زور سے دعا مانگنے سے منع کرتی ہے، جیسا کہ آج کل دیکھا جاتا ہے۔ دعا کے آداب میں خشوع و خضوع شامل ہیں، جیسا کہ فرمایا گیا: { اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے سے پکارو}
امام طیّب نے اپنے پروگرام "الإمام الطيب" کی چوبیسویں قسط میں وضاحت کی کہ اللہ کے نام "المجیب" کا مطلب ہے دعا کو قبول فرمانا، جیسا کہ فرمایا: { تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی ہے، پس تم ثابت قدم رہو...} دوسرا مطلب ہے: سائل کو وہ دینا جو اس نے مانگا۔ یہ "فعل" کی صفت ہے۔ تیسرا مطلب حدیث سے لیا گیا:
"بے شک تمہارا رب حیادار اور کریم ہے، بندہ جب اپنے ہاتھ اس کے سامنے اٹھاتا ہے تو وہ انہیں خالی واپس کرنا پسند نہیں کرتا"۔ یہاں دعا قبول کرنا "فعل" کی صفت بھی ہے، اور ذات کی بھی۔
مقبول دعا کے تین بنیادی شرائط ہیں: 1. کھانا حلال ہو2 . دل حاضر اور اللہ کی رحمت پر بھروسہ ہو 3-. کسی ناممکن یا فاسد چیز کا سوال نہ کیا جائے
مثلاً: یہ کہنا کہ "اے اللہ! مجھے مریخ پر گھر عطا فرما" – یہ ناممکن ہے۔ یا مال و دولت صرف فخر و غرور کے لیے مانگنا – یہ فاسد مقصد ہے۔ لیکن اگر مال اس لیے مانگا جائے کہ خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے تو یہ جائز ہے۔
آخر میں امامِ اکبر نے دعا کے آداب کی وضاحت کی، جن میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں: آواز کو نیچا رکھنا، جیسا کہ فرمایا:
{اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھو، نہ بالکل آہستہ، بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک راستہ اختیار کرو}
اور
{اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے سے پکارو، بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا}
معتدی وہ ہوتا ہے جو دعا میں اعتدال سے تجاوز کرے۔
ہاتھوں کو بلند کرنا، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کے عمل سے ثابت ہے۔ دعا کی ابتدا اللہ کی حمد و ثنا اور درود سے کرنا، اور آخر میں چہرے پر ہاتھ پھیرنا۔ دعا کی قبولیت پر یقین رکھنا۔ شیخ الازہر نے واضح کیا کہ آداب دعا مستحب ہیں؛ اگر یہ نہ بھی ہوں تب بھی دعا قبول ہو سکتی ہے۔
لیکن شرائط واجب ہیں؛ اگر یہ نہ ہوں تو دعا رد ہو جاتی ہے۔