19 اپریل 2017م

خونریزی کا مباح قرار دینا

دور اور قریب کے ہر شخص نے  ان غدارانہ بم دھماکوں کی کا مشاہدہ کیا جس نے طنطا میں سینٹ جارج چرچ اور اسکندریہ میں سینٹ مارک چرچ کو نشانہ بنایا۔ اور ان کا شکار معصوم اور پرامن لوگ تھے ، جو اپنی نماز ادا کر رہے تھے۔ جنہوں نے عیسائیوں سے پہلے مسلمانوں کے دلوں میں وہ درد اور غم چھوڑا  جن پر قابو پانا یا بھولنا آسان نہیں ہے۔ یہ وحشیانہ جرم یقینی طور پر مصر کے عیسائیوں کو نقصان نہیں پہنچا رہا ہے ، بلکہ یہ دنیا کے مختلف حصوں کے مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
آسمانی ادیان – شروع  سے آخر تک- انسانوں کے لیے امن کے پیغام کے سوا کچھ نہیں بلکہ میرا دعویٰ ہے کہ وہ جانوروں ، پودوں اور تمام فطرت کے لیے امن کا پیغام ہیں۔
ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ اسلام ایک مذہب کے طور پر مسلمانوں کو اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا سوائے ایک صورت کے یہ اپنی ، زمین اور وطن کے خلاف جارحیت کو روکنے کے لیے ہو۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مسلمان دوسروں انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لیے لڑے ہوں۔ بلکہ اسلام غیر مسلموں ، عیسائیوں اور یہودیوں کو دشمنی ، تناؤ اور تنازعات کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھتا بلکہ پیار اور انسانی بھائی چارے کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔
محکم نصوص پر مبنی دین - جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے - کو تشدد ، دہشت گردی اور قتل کے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔
یہ واضح ناانصافی ہے - بلکہ یہ رائے میں غلطی ہے - مذاہب سے تعلق رکھنے والے  وہ چند جاہل اور قلیل افراد کی غلطیوں کی وجہ سے جو اندھے ، بہرے اور خود گمراہ ہیں اور گمراہ کرنے والے ہیں آپ ان کی وجہ سے ادیان پر حکم لگائیں ۔
یہ ہمارے لیے ناگزیر ہے - اب - کہ صحیح فقہ کی آواز بلند تر ہو جس پر (کاربند رہتے ہوئے) مسلمانوں نے مسلسل کئی صدیاں اور لمبی عمر گزاری ہے۔ یہ بھی ناگزیر ہے کہ علماء حقیقت پر اتر آئیں ، اور مذہب میں فتوی کے بحران کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں ۔
مسلمان علماء کو اس دین کی حقیقت اور اس کی واضح دعوت جو  مشرق اور مغرب کے درمیان بھائی چارے ، آشنائی اور امن کی ہے  کو واضح کرنے میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالنی ہوں گی۔ اور لوگوں کے خون ، عزت اور مال کی حرمت کی ممانعت کی ہمیں اس دین  کے علاوہ کسی اور میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسلام آخرت سے پہلے دنیا میں جان بوجھ کر قتل کی سخت سزا کے معاملے میں منفرد ہے۔ جو ہمیں یہ پوچھنے کی طرف لے جاتا ہے:
اس مذہب کو کس طرح  تشدد ، قتل اور پر امن لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کی شکل میں پیش کیا گیا جب کہ یہ رحمت کے تصور اور اس کے معنی کے گرد - وجود ، اور مقصد کے اعتبار سے گھومتا ہے ؟
اس پاکیزہ دین کو اس گھٹیا تہمت  کا نام نہ  دیا جاتا۔ اگر آخری عرصے میں یہ امت  اپنے برے ناتجربہ کار بیٹوں اور جوانوں سے  دوچار نہ ہوتی ، وہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کو قتل ، لاشوں کو آگ لگانا اور مسخ کرنے کے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ، اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے جرائم سے خدا کی راہ میں جہاد  کر رہے ہیں اور اسلامی ریاست کو زندہ کر رہے ہیں۔ وہ مسلمان جنہوں نے ان سے اختلاف کیا اور ان کے منحرف نظریات اور منحرف فرقوں کو قبول نہیں کیا جنہیں اسلام مسترد کرتا ہے اور ان سے براءت  کرتا ہے اور سخت ترین تردید کے ساتھ مسترد کرتا ہے وہ ان کی تکفیر کرتے  ہیں۔
جہاد کے تصور کو ان شدت پسند اور فرقہ وارانہ مسلح تنظیموں نے مسخ کیا ہے۔ اور وہ جسے چاہتے ہیں  قتل کر دیتے ہیں اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ جہاد ہے اور اگر وہ مارے گئے تو وہ شہید ہیں جنت ان کا ٹھکانہ ہو گا۔
یہ اسلامی شریعت کو سمجھنے میں ایک انتہائی گھناؤنی غلطی ہے۔  اس کی کئی وجوہات ہیں:
پہلی: اسلام میں جہاد کو صرف اپنی جان، دین اور وطن کے دفاع کے لیے مشروع کیا گیا ہے ، اور ہم ازہر میں اپنے شیوخ  سے حفظ کرتے  آئے ہیں کہ : "لڑائی کی وجہ جارحیت ہے۔"۔
دوسری وجہ: جہاد کا اعلان کرنا اور اسے شروع کرنا ، حاکم کے علاوہ کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے ، اور افراد یا جماعتوں  کے لیے یہ کسی طور بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اس امر کی سرپرستی کریں حالات اور ظروف  کیسے ہی کیوں نہ ہوں ۔ بصورت دیگر  اس کا نتیجہ معاشرے میں ہنگامہ خیز انارکی ، خونریزی ، عزت کی بے حرمتی اور ناحق مال کو حلال قرار دینے کی صورت میں ہوگا۔ اور  آج  ہم یہی بھگت رہے ہیں – اور یہ ان شرعی  احکامات کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ لہذا: اسلام انسانی جان پر زیادتی کرنے سے منع کرتا ہے - اس کا مذہب یا عقیدہ  کوئی بھی ہو - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وه کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے واﻻ ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے، اس نے گویا تمام لوگوں کو زنده کردیا [مائدہ : 32] ، سو: اسلام نے دوسرے ادیان کے لوگوں کے لیے ، شادی کے ساتھ گھل مل جانے اور ایک گھر اور ایک چھت کے نیچے اکٹھے رہنے کی راہ کھول دی ہے۔ سو اسلام مذاہب کے بقائے باہمی کو تسلیم کرتا ہے ، اور مذاہب کے بیٹوں کے درمیان خاندانی تعامل کو بھی تسلیم کرتا ہے ۔ اور ازہر شریف - قیامت کے دن خداتعالی کے سامنے پہچانے  اور بیان کرنے  کی ذمہ داری اٹھاتا ہے - ان خیالات کے انحراف کے بارے میں مسلسل انتباہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ اور یہ  (انحرافات) تھوڑے یا بہت کسی بھی سطح پر ان کا اسلام ، قرآن اور شریعت سے کوئی تعلق  نہیں ہے –اور یہ  (( لوگ)) خدا اور اس کے رسول کی رہنمائی کے حصول میں گمراہ ہیں۔ اور یہ کہ انہیں علم ہے یا نہیں  لیکن انہوں نے اسلام کو اس کے دشمنوں سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ، اور انہوں نے اس کے روادار اور خالص امیج کو مسخ کیا ہے۔ اور اسلام سے کھیل کر انہوں نے اسلام کی مسخ شدہ اور نقلی صورت پیش کی۔ جس کا اس روادار مذہب کے دشمنوں اور تعاقب کرنے والوں نے فائدہ اٹھایا۔ 
ازہر اب بھی ان نوجوانوں کو پکارتا ہے جنہیں مذہب کے نام پر ان دہشت گرد تنظیموں نے دھوکہ دیا ہے اور وہ ان سے بری ہے۔ وہ ان کے نشے سے بیدار ہونے اور ان کی ہدایت کی طرف لوٹنے کی خواہش رکھتا ہے۔ اور وہ یہ جان لیں کہ مبالغہ آرائی جس کی وجہ سے وہ ان اندھے فتنوں میں مبتلا ہوئے ہیں، خدا کے رسول نے ہمیں اپنے اس قول میں اس سے متنبہ کیا تھا: اے لوگو ، مذہب میں مبالغہ آرائی سے ہوشیار رہو۔ جو تم سے پہلے تھے وہ مذہب میں مبالغہ آرائی کے ذریعے تباہ ہوئے۔ اور ایک قول میں فرمایا: "متنطعون ہلاک ہو گئے۔" یعنی: قول و فعل میں حد سے تجاوز کرنے والے۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024