01/11/2018

الازہر بین الاقوامی کانفرنس برائے حمایت قدس

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png
یروشلم اور تمام فلسطین، اپنے اسلامی اور عیسائی مقدس مقامات کے ساتھ، ایک نمونہ اور مذہبی، تہذیبی اور انسانی وجود اور بقائے باہمی کی علامت ہیں۔ اس تقدس کو پامال کرنے اور اس علامت کی خلاف ورزی سے دنیا میں اقوام اور مذاہب کے امن کو خطرہ ہے۔
یروشلم شہر پر صہیونی قبضے کے کے بعد سے، مقدس شہر کو یہودی بنانے، اس کی شناخت کو تبدیل کرنے اور اس کی عرب خصوصیات کو مٹانے اور کالونیوں کو ان کے اصل باشندوں کے گھروں سے بدلنا، اور حرم قدس کی عارضی اور مقامی تقسیم مسلط کرنے کے منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ اور اس کے آخر میں، مسلمانوں کے لیے مسجد اقصیٰ میں داخلے کے لیے من مانی اقدامات مسلط کرنے کی کوشش تھی۔
عالمی برادری اور عالمی طاقتوں کی جانب سے قبضے کی خلاف ورزیوں کا مقابلہ کرنے میں ناکامی اور اس کی بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی اور اسے مسلسل مدد فراہم کرنے، اور کسی بھی بین الاقوامی قرارداد کو روکنے اور اس میں خلل ڈالنے جو اسے اس کے حملوں اور جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہراتی ہے۔ (پر عمل نہ ہونے) کی وجہ سے یہودیت کی منصوبہ بندی بغیر رکے جاری ہے۔ اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ امریکہ نے بیت المقدس کو غاصب صیہونی ملک کا دارالحکومت تسلیم کر لیا۔ جسے الازہر اور دنیا کے بہت سے امن پسند لوگوں نے سرعام رد اور مذمت کی ہے۔ جس کے بعد امریکی صدر کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ اقدام کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ غیر منصفانہ اعتراف کرتے ہوئے کہ یروشلم فلسطینی عرب سرزمین پر قابض صہیونی ادارے کا دارالحکومت ہے۔
سو الازہر الشریف اپنی مذہبی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اور وہ امانت جو اس نے ایک ہزار ستر سال سے زیادہ فخر اور عزت کے ساتھ اٹھائی ہوئی ہے۔ کہ مہ اسلامی امت کے مسائل اور تمام انسانی منصفانہ مسائل  کا دفاع کرے گا  ان میں سب سے آگے فلسطینی عوام کا حق ہے کہ وہ اپنے مکمل حقوق، مقدسات اور تاریخی سرزمین کی بازیابی کریں۔
امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر نے قاہرہ میں 17-18 جنوری 2018 کو ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جس کا عنوان تھا: " الازہر بین الاقوامی کانفرنس برائے حمایت قدس
"۔ اس میں یروشلم کے مسئلے سے متعلق متعدد بین الاقوامی تنظیموں اور ادارے اور دنیا بھر سے امن سے محبت کرنے والے جمع ہوئے۔ تاکہ فلسطینیوں کی عزت کے انتصار، ان کی سرزمین کی حفاظت، مذہبی مقدسات کے تشخص کے تحفظ اور تمام بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے والے صہیونی استکبار کو پسپا کرنے اور دنیا بھر کے چار ارب سے زائد مسلمانوں اور عیسائیوں کے جذبات کو مشتعل کرنے والے عملی طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا جائے۔
کانفرنس میں دنیا کے کئی ممالک کے صدور، وزراء، قائدین اور مذاہب کے رہنماؤں نے شرکت کی ان میں سر فہرست عزت مآب صدر محمود عباس، ریاست فلسطین کے صدر،  جناب احمد ابو الغیط، آف عرب لیگ یونیورسٹی کے سیکریٹری جنرل، اور کویتی قومی اسمبلی کے اسپیکر جناب مرزوق الغانم تقدس مآب پوپ تواضروس، اسکندریہ کے پوپ اور سینٹ مارک کے سرپرست، اور مسٹر اولاف فکس، ورلڈ کونسل آف چرچز کے سابق سیکرٹری جنرل، اور کارٹا ناکوی یہودی مخالف صیہونی تحریک کا ایک وفد نے شرکت کی۔۔ sن مسٹر اولاف فکس، ورلڈ کونسل آف چرچز کے سابق سیکرٹری جنرل، اور Nakoi Karta یہودی مخالف صیہونی تحریک کا ایک وفد aved
ان کی سربراہی عزت مآب صدر محمود عباس، ریاست فلسطین کے صدر جناب احمد ابو الغیط، لیگ آف عرب اسٹیٹس کے سیکریٹری جنرل، کویتی قومی اسمبلی کے اسپیکر جناب مرزوق الغنیم،
 
الازہر بین الاقوامی کانفرنس برائے حمایت قدس میں گرینڈ امام کا خطاب
 
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمدلله والصلاة والسلام على سيدنا محمد رسول الله وعلى آله وصحبه ومن سار على دربه
           عزت مآب فلسطينى اقتدار كے صدر محمود عباس اور معزز ومحترم حاضرين كرام 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم آپ كے  اپنے ملک مصر اور ازہر شريف ميں  آپ كا خير مقدم كرتے ہيں، قبلہ اول  تيسرے حرم ،مسجدِ اقصى اور قدس شريف كى حمايت كے عنوان سے منعقد كى جانے والى اس بين الاقوامى كانفرنس ميں آپ تمام حضرات كى آمد اور شركت پرآپ كا شكريہ اداكرتا ہوں، عرب جمہوريہ مصر كے صدر جناب عبدالفتاح السيسي كى  سرپرستى ميں يہ كانفرنس منعقد ہورہى ہے، جو مصر اور مصري عوام كے ساتھ ملكر محبوب فلسطين كے مسئلہ كى نگرانى كر رہے ہيں، خصوصاً ايسے وقت ميں جب غير ذمہ دارانہ فيصلوں اور ظالمانہ پاليسيوں كى وجہ سے حالات مزيد پيچيده ہوگئے ہيں، لہذا ہم  فلسطين، اس كے عوام، اس كے مقدس مقامات اور اس كى سرزمين كے بارے ميں فكرمند رہنے والے صدرِ جمہوريہ مصر، تمام عرب و مسلم رہنماؤں اوردنيا كے ان تمام شريف لوگوں كے لئے دعاگو ہيں كہ الله تعالى انہيں توفيق عطا فرمائے، ان كے اندر عزم واراده اور ايسى قوت پيداكرے جو صرف حق اور كمزوروں كے ساتھ عدل وانصاف كے لئے ہى نرم پڑے۔
ہم فلسطيني اقتدار كے صدر جناب محمود عباس كو سلام پيش كرتے  ہيں،  اور ان سے اپيل كرتے ہيں كہ وه مزيد ثابت قدم  رہيں ۔
حضرات گرامى:
ازہر شريف اپريل 1948 سے فلسطين، مسجد اقصى اور قدس كے عيسائى مقدس مقامات سے متعلق يكے بعد ديگرے كانفرنس منعقد كرتا رہاہے، اور جب ميں نے ان پر نظر ڈالى تو معلوم ہوا  كہ 1948 سے ليكر 1988 تک گياره كانفرنس  منعقد ہوئيں، اور ان ميں افريقہ، ايشيا اور يورپ كے بڑے بڑے مسلم اور عيسائى عالموں اور دانشوروں نے شركت كى۔
اور ان ميں انتہائى قيمتى وعلمى اور جامع مقالات پيش كئے گئے، اور ان كى حالت  سِل  كے اس مريض كى تھى  جس كى بيمارى بڑھ گئى ہو، اور وه دوا سے محروم ہو۔
  يہ تمام كانفرنسيں، مسلمانوں اور عيسائيوں كے مقدس مقامات پراسرائيلى  جارحيت، مسجد اقصى پر قبضے، اسے جلانے، كھدائى كر كے  سرنگيں بنا كر اس كى حرمت پامال كرنےاور اس كے صحن ميں قتل وغارت  كا  بازار گرم كرنے، ديروں اور گرجاگھروں جيسے عيسائى آثار حملہ كركے انہيں تباه وبرباد كرنے، اور قدس طبريہ اور يافا وغيره جيسے شہروں كے مقبروں اور  پناه گاہوں كو نقصان پہنچانے جيسى كاروائيوں كى مذمت كرتى  رہيں۔
اسلامى اورعيسائى مقدس مقامات اور مسئلہ فلسطيں سے متعلق منعقد ہونے والى ان كانفرنسوں كے  تيس سال بعد  ازہر شريف آج بارہويں كانفرنس منعقد كر رہا ہے،، اگر چہ   همارى  آج كى كانفرنس ميں مشرق ومغرب كى روشن خيال اور زنده ضمير ركھنے والى شخصيت جمع ہيں، تاہم اس بات كى توقع نہيں كہ (زيربحث) ہمارے اس مسئلے  اور اس كے علمى وتاريخى اور سياسى پہلوں پر جو كچھ لكھا  اور كہا جا  چكا ہے اس ميں كوئى اضافہ كيا جائے گا، ليكن يہ بات ضرور ہے كہ يہ كانفرنس خطرے كى گھنٹى بجار رہى ہےاور مرده عزم وارادے ميں جان پيدا كركے عربوں، مسلمانوں عيسائيوں اور دنيا كے مفكروں، داناؤں اور معزز لوگوں كو اس بات پر متفق كرنے كى كوشش كر رہى ہے كہ اكيسويں صدى ميں اس غير انسانى اور بيہوده صہيونى كاروائيوں كے سامنے ڈٹے رہنے كى ضرورت ہے، جن كى حمايت ايسى بين الاقوامى پاليسياں كر رہى ہيں جو اس صہيونى وجود اور پاليسوں كے خوف سے كانپتى ہيں، اوران كى اجازت كے بغير ايک بالشت حركت نہيں كر سكتيں، ميں پورے يقين كے ساتھ يہ كہہ سكتا ہوں اورعلم كلام كے علمائے كرام بھى يہى كہتے ہيں كہ ہر قبضہ كو  زائل اور ختم ہونا ہے، اگرچہ آج يہ محسوس ہورہا ہے كہ ايسا ہونا محال ہے، تاہم دن گردش كرتے رہتے ہيں، اور غصب كرنے والے كا انجام سب كو معلوم ہے، اور دير يا سوير ظالم  كا خاتمہ يقينى ہے، اور آپ مشرق ميں روميوں كى تاريخ سے  پوچھيئے، جزيرۀ عرب كے مشرق ميں فارسيوں سے ان كى تاريخ دريافت كيجيئے، ان صليبى حملہ آوروں سے پوچھيئے جنہيں فخر تھا كہ ان كى كالونيوں سے سورج غروب نہيں ہوتا، اس يورپى سامراج سے پوچھيئے جو مراكش، الجزائر، تونس، مصر،  شام، عراق، ہندوستان، انڈونيشيا اور صومال سے اپنا بور يا بستر باندھ كر كس طرح بھاگ كھڑا ہوا، ان تمام لوگوں سے پوچھيئے تاكہ آپ كو معلوم ہوجائے كہ ظالموں كا انجام زوال ہى ہوتا ہے، اور ابن خلدون كے بقول ہر ظالم طاقت زوال پذير ہوتى ہے۔
ہمارے عربى شاعر كے أيک شعر كا خلاصہ ہے: راتيں پراميد ہوتى ہيں اور پھر ہر قسم كى عجيب وغريب چيزيں پيداكرتى ہيں۔
يہ  ايک دنيوى حقيقت ہے اور الله تعالى كى سنت ہے، اور  اس ميں شک كرنا، علم، عقل، اور غور وفكر ميں عيب لگانا ہے۔
ليكن اس حقيقت كے ساتھ ايک دوسرى حقيقت بھى ہے جو اس سے پہلے آتى ہے، اور اس كى ولادت كےلئے تيار رہتى ہے، اس سے ہمارى مراد ايسى قوت حاصل كرنا ہے جو جارحيت كو مرعوب كردے، اور اسے مجبور كرے  كہ وه اپنے منصوبوں پر نظر ثانى كرے، اور ظلم وزيادتى كابازار گرم كرنے سے پہلے ہزار بار سوچے، اور الله جانتا ہے كہ ہم  سلامتى كى دعوت ديتے ہيں ليكن يہ سلامتى عام سلامتى نہيں ہے بلكہ ايسى سلامتى ہے جو عدل وانصافـ احترام اور ان حقوق كا پاس ولحاظ ركھنے كى بنياد پر قائم ہو، جس كى نہ تو  خريدوفروخت ہوتى ہے اور نہ ہى اس ميں كسى بھاو كى گنجائش ہوتى ہے، ايسى سلامتى جس ميں كوئى ذلت ورسوائى نہ ہو، جس ميں كسى كے سامنے جھكنا نہ پڑے، جس ميں وطن يا مقدس مقامات كى أيک بالشت زمين پر بھى كوئى آنچ نہ آئے، ايسى سلامتى جس كى حمايت علم واقتصاد كى طاقت كرے، جس كى حكمرانى منڈيوں ميں ہو، جس ميں ايسے اسلحے سازى  كى گنجائش ہو جو اينٹ كا جواب پتھر سے دے، ايسى سلامتى جو ہراس ہاتھ كو كاٹ ڈالے جو سرزمين وطنِ اور اس كے عوام كو نقصان پہنچانے كى كوشش نہ كرے۔
اگر اس زمانے ميں ہمارى قسمت ميں يہ لكھ ديا گيا ہے كہ ہمارے درميان ايک ايسا اجنبى دشمن موجود ہو جو صرف طاقت كى زبان سمجھتا ہو تو پھر الله كے سامنے اور تاريخ كے سامنے ہمارے ليے كوئى عذر نہيں ہے كہ ہم  اس دشمن كے سامنے كمزور اور رسوا ہو كر باقى رہيں حالانكہ_اگر هم چاہيں تو ہمارے ہاتھ ميں طاقت كے تمام تر عوامل واسباب، اور اس كے مادى اور انسانى ذرائع موجود ہيں۔
اور ميں ان لوگوں ميں ہوں جن كو يقين ہے كہ 1948 يا 1967 يا ان  كے علاوه ديگر اوقات ميں ہونے  والى جنگوں اور جھڑيوں ميں صہيونى وجود نے ہميں شكست نہيں دى بلكہ ہمارى شكست خود ہمارے ہاتھوں ہوئى اورخطرات كا صحيح اندازه  نہ لگانے كى وجہ سے ہميں شكست ہوئى ، ہم نے سنجيدگى كى بجائے غير سنجيدگى كا مظاہره كيا، ورنہ ايک ايسى منتشر قوم جس كى نہ تو كوئى شناخت ہو اور نہ وفاداراى اس كے بس كى بات ہوكہ وه ايسے لوگوں كا مقابلہ كرے جو ايک مضبوط اور پختہ عقيدے  كے ساتھ اورايک ہى پرچم كے نيچے جنگ لڑتے ہوں خواه ان كا پرچم گرہى كيوں نہ جائے اور ان كى طاقت كمزور ہى كيوں نہ ہوجائے، ارشاد باى تعالى ہے: (وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ)  (الأنفال: 46) يعنى (آپس ميں اختلاف نہ كرو ورنہ بزدل ہو جاؤگے اور تمہارى ہوا اكھڑجائے گى)۔
میں مکمل شعور کے ساتھ کہتا ہوں کہ میرے یہ الفاظ کوئى نيا انکشاف نہیں ہے، یہ تو درد و الم کی کوکھ  سے جنم لینے والے الفاظ ہیں، جن کا اثر مسلسل 70 سال سے سماعتوں کو جھنجھوڑنے والے  اصحاب فکر و دانش کے خطبات سے زیادہ تو نہیں ہو سکتا ، اور نہ ہی یہ الفاظ کاٹنے اور نگلنے والی  شہوت و حرص اور ہوس  کو ختم کرسکتے ہیں، اور نہ ہی يہ بہتے خون اور ان قربانیوں و گرفتاریوں کا درد بیان کرسکتے ہیں؛ جو فلسطین کے نوجوانوں اور عورتوں نے نہ جھکنے والی ثابت قدمی، نہ ختم ہونے والے صبر اور غير متزلزل عزم و ہمت سے جھیلی ہیں۔
جی ہاں ! ہماری آج کی اس کانفرنس اور میرے الفاظ سے متعلق یہ کہا جاۓ گا، مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور آپ مجھ سے اختلاف نہیں کریں گےکہ: آج کی کانفرنس پہلی کانفرنسز سے مختلف ہے کیونکہ یہ ان حالات میں منعقد ہو رہی ہے، جب  گھنگور گھٹائیں خوفناک طوفانوں کا پتہ دے رہی ہیں؛ پورےخطے کو تقسیم کرنےاور توڑنے  کے لۓ اس میں صہیونی استعمار کو سیاہ و سفید کا مالک بنا کر داروغہ بنانے کے لۓ الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ یمن ، عراق اور شام جیسے اطلس کے ساحلوں ، بحر احمر کے دروازوں اور بحر متوسط کے مشرقی کناروں پر عرب وطن جن حالات  وواقعات كا سامنا كررہا ہے، ان کو دیکھتے ہوۓ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ معاملہ بہت خطرناک ہے۔ چنانچہ وہی پرانے الفاظ اور نعرے اس مکرو فریب کے لۓ کافی نہیں ہے  اور سات دہائیوں سے جس طرح ہم مقابلہ کر رہے ہیں اگر صرف یہی کرتے رہے تو ہماری آنے والی نسلیں ہم پر لعنت بھیجیں گی اور ہمیں اپنے اباء اجداد کہتے ہوۓ انہیں شرم محسوس ہوگی۔ اگر مجھے اس كانفرنس سے کوئی امید ہے تو وہ یہ کہ ہم اس  سے کچھ عملی نتائج برآمد کریں گے، جن کے نتیجے میں اگرچہ چھوٹے پیمانے پر ہی کیوں نہ ہو،ايک منظم جد وجہد کا آغاز ہو۔ 
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ : مسئلہ فلسطین سے متعلق عمومی اور بیت المقدس کا خصوصی طور پر شعور بیدار کیا جاۓ۔ یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ تعلیمی نصاب لاکھوں کروڑوں عرب و مسلم نوجوانوں میں اس مسئلے کا شعور بیدار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ ایک بھی نصاب ایسا نہیں ہے جو اس مسئلے کے خطرات کو بھانپنے، اس کی موجودہ صورتحال کو جاننے اور ہمارے ان نوجوانوں کے مستقبل پر ہونے والے اس کے اثرات کو اجاگر کرے، جو عنقریب فلسطین کے دفاع کا جھنڈا گرا دینے والے ہیں، كيوںکہ وہ اس مسئلے کے بارے میں ان استعماری نوجوانوں کے مقابلے میں کچھ جانتے ہی نہیں ہیں، جو بچپن سے تعلیمی و تربیتی نصابوں، ترانوں اور دعاؤں کے ساۓ میں دشمنی سے معمور وجدان، نسل پرستی اور عرب و مسلم شہریوں سے نفرت کی اساس پر نشو و نما پاتے ہیں۔
اور یہی وہ امر ہے جو ہمارے مسلم و عرب دنیا کے تعلیمی و تربیتی نصابوں اور ذرائع ابلاغ میں موجود نہیں ہے۔ فلسطین اور مسئلہ ِبیت المقدس  صرف ایک خبر بن کا رہ گیا ہے، بلکہ نامہ نگاروں کی ایک ایسی رپورٹ بن کر رہ گئی ہے جس کا اثرفقط پڑھنے تک ہی رہتا ہے۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ : امریکی صدر کا وہ ظالمانہ فیصلہ جسے 128 ملکوں نے مسترد کردیا ہے اور امن و سلامتی کی خواہاں تمام قوموں نے اسے برا سمجھا؛ لہذا اس کا مقابلہ ایسی عرب و مسلم فکر کے ساتھ کیا جاۓ، جس کا محوری نقطۂ نظر بیت المقدس کی عرب شناخت ، مسلم و عیسائی مقدسات کی حرمت اور انہیں ان کے مالکان کی ملکیت میں دے دینا ہو۔ اور اسے عرب و مسلم ذرائع ابلاغ کے ذریعے مقامی اوربین الاقوامی شعور کا حصہ بنا دیا جاۓ ، کیونکہ میڈیا ہی دراصل وہ میدان ہے جس میں ہمارے دشمن نے ہمیں شکست دی ہے۔
ہمیں دینی تناظر– اسلام ہو یا عیسائیت – سے بھی مسئلہ قدس کو اجاگر کرنے میں ترددو تذبذب سے کام نہیں لینا چاہیۓ۔
مسئلہ فلسطین کے دینی پہلو سے غفلت كرنا كوتاہى اور نہایت عجیب امر ہے، جبکہ صہیونی استعمار کا تمام انحصار خالص مذہبی استدلال پر ہے، جسے وہ نہ تو چھپاتے ہیں اور نہ ہی ان کے پردوں کے پیچھے چھپتے ہیں۔ اس صہیونی استعمار کے پاس اس مقدس سرزمین پر ظلم و ستم روا رکھنے کے لئے اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ وہ مذہبی متون کا سہارا لے، اور لوگوں کی جان مال اور آبرو کو مباح قرار دے؛ بلکہ  صہیونیت کے پاس اس استعمار کی حمایت کے لئے  مذہبی تعبیرات کے  سوا اور ہے کیا؟ ان مفاہیم کو پوپ ، عیسائی علماء اور راہب حضرات مسترد کرتے ہیں۔
اب میں جو تجویز آپ حضرات کے سامنے پیش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ : 1918ء کے سال کو بیت المقدس کے تعارف  اور اسکی مادی و معنوی حمایت کے لۓ قدس شریف کا سال قرار دیا جاۓ، اور اس سال میں بين الاقوامى  تنظیموں جیسے عرب لیگ، تنظیم تعاونِ اسلامی ، دینی اداروں ، عرب و مسلم جامعات اور سول سوسائٹی کے اداروں  ميں  بیت المقدس پر مسلسل دعوتى وصحافتى  اور معلوماتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جاۓ۔
میں اپنی بات ختم کرتے ہوۓ ، پوری امت کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے کندھوں کو مضبوط کریں ، اور اللہ کے بعد خود پر بھروسہ کریں۔ اور گھات لگاۓ بيٹھے  ان دشمنوں کے وعدوں کی طرف مائل نہ ہوں، جو محبت كو پسِ پشت ڈال كر ہر سرخ لکیر کو پار کرچكے ہيں ۔  فرمان بارى تعالى ہے:
"ديكھو ظالموں كى طرف ہرگز نہ جھكنا ورنہ تمہيں بھى  (دوزخ كى) آگ لگ جائے گى اور الله كے سوا  تمہارا مددگار نہ كھڑا ہوسكے گا اور نہ تم مدد ديئے جاؤ گے۔ ۔ ( ھود : 3 )
حسن سماعت پر بہت شکریہ
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
28 ربیع الثانی 1439 ھ بمطابق 16 جنوری 2018 ء کو تحریر شدہ
امام  اكبر شیخ الازہر
پروفيسر ڈاکٹر احمد الطیب
 
 
سیمینارز اور کانفرنسز

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024