امام اکبر کہتے ہیں: عزت اکیلے اللہ کے لئے ہے اور اسے بندوں سے مانگنا ذلت ہے۔
امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر نے کہا: اللہ کی صفت عزیز عزت سے ماخوذ ہے یعنی وجاہت اور بزرگی، اس کا موصوف کسی فکر یا خیال کا ہو نا ناممکن ہے، بعض لوگ عزیز سے مراد نادر اور منفرد لیتے ہیں، انہوں نے مزید وضاحت کی ہے کہ اس معنی میں عزت اللہ تعالی کے لیے ہے اور قرآن کریم میں یوں وارد ہواہے: من کان یرید العزۃ فللہ العزۃ جمیعا، ہمیں انسانی عزت اور الوہی عزت کے مابین فرق کرنا چاہیے، الوہی عزت انسان کے لئے ہونا ناممکن ہے، کیونکہ انسانی عزت ناقص ہے، اس میں مطلق وجاہت یا قوت نہیں ہے جو نہ کبھی کمزور ہو اور نہ ہی فنا ہو۔
امام اکبر نے اپنے رمضان پروگرام " شیخ الازہر کی گفتگو" کی بارہویں نشست میں واضح کیا ہے کہ: اگر عزیز سے مراد وجاہت اور قوت ہے تو بندے کا اس میں حصہ نہیں ہے یا اسے افکار اور خواطر نہیں پہنچتے، اسے جان لینا چاہیے کہ اللہ ہی صرف عزیز ہے، اگر وہ بشری تقاضوں میں عزت کا طالب ہے تو اللہ کے سوا کسی سے نہ مانگے، کسی بندے سے طلب نہ کرے، اگر وہ اپنے جیسے کسی بندے سے عزت مانگتا ہے تو اسے جان لینا چاہیے کہ وہ کسی کمتر سے مانگ رہا ہے عزیز سے نہیں مانگ رہا۔
بعض لوگوں کو تعجب ہےکہ اللہ عزوجل کو جبار، منتقم، متکبر اور مذل جیسی صفات سے متصف کیا جاتا ہے، تو شیخ الازہر اسے واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تعجب یا تو جہل کی وجہ سے ہے یا درایت و معرفت کے نہ ہونےکی وجہ سے ہے، یا جانتے بوجھتے خبث باطن کا اظہار ہے؛ قران کریم اور ان صفات میں غوروفکر کرنے والا پالیتا ہے کے یہ صفات متکبرین، انتقام لینے والوں اور ظالموں کے لیے ہیں، ان کا خاص میدان ہے جس میں یہ کام کرتی ہیں، اللہ کسی کمزور مومن پر یہاں تک کہ ایسے کمزور ملحد پر بھی سختی نہیں کرتا جو بندوں پر ظلم نہیں کرتا، چنانچہ اللہ کی صفت جبار سے متعلق یہ کہنا کہ وہ متکبر ہے یہ سراسر جہالت ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: آپ كا رب بندوں پر ظلم كرنے والا نہيں، کسی سرکش فرعون یا ظالم پر اللہ کی صفت جبار کا اثر جب ظاہر ہوتا ہے تو یہ سختی نہیں بلکہ عدل کا تقاضہ ہے۔
امام اکبر نے کہا کہ: لغت میں جبار کا معنی بلند اور عظیم ہے، جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا، جیسے اہل عرب کہتے ہیں: " نخلہ جبارہ" اور "ناقہ جبارہ"، اور قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: قالو ا يموسى إن فيها قوما جبارين، "انہوں نے جواب ديا كہ اے موسى وہاں تو زور آور سركش لوگ ہيں"یعنی ان تک کوئی نہیں پہنچ سکتا، جبار کا دوسرا معنی تسلی اور دل جوئی ہے، یعنی ٹوٹے ہوئے کو جوڑنا، جیسا کہ بعض لوگ ہیں: لغت میں جبار کا معنی قہر اور کسر ہے، انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے نام جبار سے انسان کا حصہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کی دل جوئی کرے اور تکبر سے پیش نہ آئے، سرکشوں اور ظالموں کے آگے ڈٹ کر کھڑا ہو جائے۔