شیخ الازہر نے اللہ کے نام "اللطیف" کے اسرار بتائے۔
شیخ الازہر: بعض علماء اور ادباء پر مادّے کی طغیانی اور حسی مذہب (کی طرف ان کا میلان) ان کو انحراف اور الحاد کی طرف لے گیا۔
شیخ الازہر: ضروری نہیں کہ مسبب سبب ہی کا نتیجہ ہو، کیونکہ اس کو انجام دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔
عزت مآب امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف نے وضاحت کی: کہ اسم "اللطیف" اللہ تعالی کے خوبصورت ناموں میں سے ایک ہے۔ اس کا مفہوم دو چیزوں کے درمیان گھومتا ہے، (پوشیدگی اور باریک بینی)، جیسا کہ اس کا اطلاق ایسی پوشیدہ چیز پر ہوتا ہے جسے نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ یا اس کو گہرائی سے تلاش کیا جائےتب جا کر اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ اور دقیق چیز سے مراد، جیسے ایٹم اور سائنس میں چھوٹی اشیاء، کیونکہ ان پر اجسام لطیفہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ وصف اجسام کے علاوہ معانی کو بھی شامل ہے، کیونکہ مادیات کے علاوہ بھی موجودات ہیں، جیسے خیالات، احساسات، محبت، نفرت اور قابل مذمت صفات، اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے آثار موجود ہیں جو ان پر دلالت کرتے ہیں۔ سو لطف امر مخفی ہے لیکن موجود ہے۔
شیخ الازہر نے اپنے رمضان پروگرام " امام طیب" کی چھٹی قسط میں اپنی گفتگو کے دوران مزید کہا۔ کہ حسی چیزیں ہی صرف وہ چیزیں نہیں ہیں جو موجود ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے کہا کہ الہی فلسفہ اور حسی مادی فلسفہ میں یہی فرق ہے، جس میں بہت سے مکاتب اور مذاہب شامل ہیں، مادے سے متعلق حسی نظریے یا سائنسی تجرباتی فلسفے کی سرکشی پر گہرے افسوس کا اظہار کیا، ( اور کہا کہ اس کی تاثیر کا یہ عالم ہے کہ) یہ علماء اور ادباء کی سوچ اور ان کے کام پر اثر انداز ہونے لگا ہے، یہاں تک کہ ان میں سے بعض کہتے ہیں: کہ "جو میرے دماغ میں ہے اور میری حس میں نہیں ہے وہ جھوٹ ہے۔"
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا مقولہ ہے جو ان کی سمت کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر الحاد کی طرف مائل ہو گئی ہے۔
امام اکبر نے وضاحت کی کہ خدائے بزرگ و برتر کا نام "الطیف" مکمل طور پر لطائف سے بھرپور ہے جو باریک بینی اور پوشیدگی کے درمیان گھومتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ علماء نے "اللطیف" نام کو دو زاویوں ذات الہیہ اور افعال الہیہ سے دیکھا ہے: کیونکہ الطیف اسم ذات ہوتا ہے جب ذات الہیہ کی طرف لوٹتا ہے اس لحاظ سے کہ یہ خالق کی طرف سے آیا ہے اور حدث سے پہلے مخلوق کی طرف سے نہیں آیا تھا، اور یہ موجود تھا اور معلوم تھا، لیکن جب معاملہ واقغ ہوتا ہے اور مخلوق کے ساتھ تعامل کرتا ہے۔ تو یہ لطف مکمل طور پر علم کے مطابق واقع ہوتا ہے، نہ مختلف ہوتا ہے نہ بدلتا ہے، ہم اسے صفت فعل کہتے ہیں، یعنی علم الٰہی کا بندے کے اعمال سے مل جانا۔ اس لیے ہم اسے خدا کے افعال کی صفت کہتے ہیں بندے کی نہیں۔ ہمارے پاس وہ علم ہے جس میں لطف ہے، اور ہمارے پاس وہ لطف ہے جو بندے سے متعلق ہے۔ وہ واقع ہونے سے پہلے صفت علم سے متعلق ہوتا ہے۔ اور جب یہ واقع ہوتا ہے تو اس کا تعلق صفت قدرت سے ہوتا ہے اور یہاں یہ فعل کی صفت ہوتی ہے۔
شیخ الازہر نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارے اعمال اس طرح سے مطلوب ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے ہمیں ان کے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسباب اور نتائج خدا کی طرف سے ہیں، لیکن ہمیں انہیں کرنا ہوگا۔ کیونکہ ہمیں انہیں بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ جب کہ ہمارا اعتقاد ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ مسبب پیدا بھی ہو، ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ جیسے آگ اور احتراق کے درمیان ہوتا ہے، کیونکہ آگ سے ملنے کے بعد جلنے کا عمل پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، آگ نہیں۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہیں جلے۔ پھر علماء نے کہا کہ آگ ایک بے جان چیز ہے جس کا کوئی ارادہ نہیں۔ اور اگر ہمارا عقیدہ ہو کہ آگ ہی جلاتی ہے تو گویا ہم خداتعالیٰ کے علاوہ ایک اور مؤثر کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے کہا کہ لوگ اکثر بہت ہی درست اور احتیاط سے حساب کرتے ہیں۔ جبکہ نتائج بالکل برعکس آتے یں۔ جبکہ بعض اوقات نتائج اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں جو سوچا اور اندازہ لگایا گیا تھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی مخفی فاعل ہے، مزید کہا کہ: یہ وہ ایمان ہے جس کا مادہ پرست مذاق اڑاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے بہت سے نوجوان ان طقیق انظار سے پھسلنے لگے ہیں۔ یہی خیالات ہیں جنہوں نے ابتدائی مسلمانوں کو خدا پر یقین اور اس کی صلاحیت پر بھروسہ دلایا، اللہ فرماتا ہے۔ اگر تم میں بیس صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو کو شکست دیں گے۔ پھر "ایک ہزار دو ہزار کو شکست دیں گے۔" ہزار دو ہزار کو کیسے شکست دے سکتا ہے؟ حساب سے یہ ممکن نہیں، لیکن وہ فتح یاب ہوئے، کیونکہ وہ ایک بہت ہی پوشیدہ طاقت سے لیس تھے۔