شیخ الازہر: "البر" خدا کے خوبصورت ناموں میں سے ایک ہے جو قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب ١٢.jpg

الازہر کے شیخ: غزہ میں اہل ایمان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک آزمائش ہے، جس کے بعد ایک نعمت ہے۔
 امام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب، شیخ الازہر نے کہا کہ: "البر" خدا کے خوبصورت ناموں میں سے ایک ہے جو قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ اس نام کا تذکرہ قرآن کریم میں ایک بار سورت طور میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں آیا ہے۔ " ہم اس سے پہلے ہی اس کی عبادت کیا کرتے تھے ، بیشک وه محسن اور مہربان ہے) اور بتایا کہ اس کے تین معنی ہیں۔ پہلا معنی " احسان " ہے، جیسے اپنے بندوں پر احسان، (البر) کا دوسرا معنی اپنے بندوں پر مہربان ہونا،  یہاں العطف کافر، مومن، اور تمام بندوں سب کو شامل ہے، (البر) کا تیسرا معنی اپنے اولیاء کی تعظیم و تکریم ہے۔ یہاں اس کا تعلق صرف مومنوں سے ہے۔ خدا تعالیٰ کافروں کو عزت نہیں دیتا اور نہ ہی ان کی عزت کرتا ہے۔۔
شیخ الازہر نے وضاحت کی: "امام طیب" پروگرام کی اکیسویں قسط کے دوران، کچھ کبار علماء، جیسے شیخ ابوبکر ابن العربی، جو مراکش کے قدیم ترین علماء میں سے ایک ہیں، نے پہلے اور دوسرے معنی کو رد کیا۔ یعنی تمام بندوں پر رحم کرنے والا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ "البر" کی تفسیر تمام بندوں کے ساتھ مہربانی سےکریں گے اس کا مطلب ہے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں۔ "تمام بندوں پر مہربان ہے۔"  گویا آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ کافروں اور مومنین کے ساتھ مہربان ہے اور یہی اشکال ہے۔ اور اسی طرح پہلی تعریف ( البر) بمعنی احسان یا محسن کو بھی رد کرتے ہیں۔ کیونکہ "احسان" کوئی صفت نہیں ہے، بلکہ ایک "اثر، نتیجہ، یا ثمرہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے آخری تعریف کو قبول کیا ، جو کہ البر بمعنی "معزز اور مکرم" اور اپنے دوستوں سے محبت کرنا ہے، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس پر ایمان رکھتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں: "اگر "البر" کا مطلب خدا کا تعظیم اور اس کے مقدس بندوں کی عزت کرنا ہے، ہم کیا سمجھیں جو زیادتی، قتل اور تشدد غزہ میں  بے وقوف اور جابر لوگ خدا کے بندوں کے ساتھ کر رہے  ہیں؟ آپ نے واضح کیا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا، خدا تعالی اپنے بندوں کی  عزت سے بری ہو گیا ہے حاشا وکلا۔ مسئلہ ایسا نہیں ہے بلکہ ہمیں اس لیے ایسا محسوس ہو رہا ہے  کہ ہم نے اس  کو اپنے محدود انسانی نقطہ نظر سے سمجھا ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو دو طرح سے دیکھیں۔ ایک عمل اس وقت توہین ہوتا ہے جب اس کا ظاہری اور باطنی معنی ایک ہی ہو۔ یعنی ظاہر وباطن میں  توہین ہو اسی طرح یہ بھی توہین ہے جب اس کا آغاز، انجام اور نتیجہ توہین ہو تو اس کا نتیجہ بھی توہین کے تناظر میں آئے گا۔
شیخ الازہر نے وضاحت کی کہ غزہ میں اس کے مومن بندوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ آزمائش کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ایک حکمت ہے جو خدا جانتا ہے۔ یہ بتایا  کہ توہین شکل میں ہے، لیکن حقیقت میں یہ توہین نہیں ہے کیونکہ یہ آزمائش کے زمرے میں آتا ہے جس کے بعد انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر یقین کے ساتھ  کہ ’’بے شک مشکل کے ساتھ آسانی آتی ہے‘‘ تو آسانی ہی نتیجہ ہے۔ یہ بیان کیا جو کچھ ہمیں برا نظر آتا ہے وہ سارے کا سارا خیر ہے اللہ تعالیٰ ہمیشہ بھلائی چاہتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس میں موجود بھلائی کی وجہ سے ہے، کیونکہ وہ ظلم نہیں کرتا۔
 
قسط کے آخر میں، آپ نے وضاحت کی کہ غربت، آفات، اور جنگیں جو اب ہو رہی ہیں، یہ بظاہر ایک توہین ہے، لیکن اس کے اندر خیر ہے۔ یہ الہی حکمت کی وجہ سے ہے جو شاید ہم سے پوشیدہ ہے۔ یہ الہی حکمت دو صفات سے منسلک کام کرتی ہے۔ صفت عدل اور خدائی جود کی صفت یا فیض الہی کی صفت، اور الہی فیض مسلسل اور بلاتعطل ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اگر ہم حکمت اور عدل کے درمیان تعلق کے بارے میں سوچتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے وہ ان کے ساتھ ظلم نہیں ہے۔ اور اگر ہم حکمت کو فیض الہی کے معنی سے جوڑنے کے بارے میں سوچتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024