«الإمام الطيب» 2025 کے پروگرام کی چوتھی قسط میں میں امام اکبر نے کہا: فلسطینی عوام کا ڈٹ جانا ایک ایسا صمود تھا جس میں فخر اور چیلنج کی جھلک تھی، اور اس کی کوئی اور وضاحت نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ اللہ نے کمزوروں کی دعاؤں کو قبول کیا۔

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

شيخ الأزہر:
 فلسطینی قوم ثابت قدم اور فخر سے اپنی سرزمین سے چمٹے رہی اور پھر سیلاب کی طرح لوٹ آئی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

انہوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ یہ صدی امن، آزادی اور انسانی حقوق کی صدی ہے لیکن غزہ پر جارحیت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ پہلی غلامی کی صدی ہے۔

امام اکبر پروفیسر  ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الأزہر اور مسلم کونسل کے صدر نے کہا: "غزہ میں اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لیے مسلمانوں کا اللہ کے حسین ناموں کے ساتھ دعا کرنا، ان کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت مؤثر ثابت ہوا۔" انہوں نے کہا کہ "اس وقت کے دوران غزہ کے عوام کو مسلسل قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑا، جس میں بچے، خواتین، بزرگ اور بیمار افراد بھی شامل تھے، اور گھروں، ہسپتالوں، مساجد، اور گرجا گھروں کو تباہ کیا گیا، نیز وہ ایسی جنگوں کا شکار ہوئے جو تاریخ میں شاید ہی کہیں دیکھی گئی ہوں۔ یہ حملے ایک ماہ کے اندر دوسری قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے لیے کافی تھے، مگر اس کے باوجود، اور اللہ کی معجزاتی مدد سے، غزہ کے عوام نے انتہائی جدید مغربی ہتھیاروں کا مقابلہ کیا اور صبر دکھایا۔"


امام طیب نے – اپنے رمضان المبارک کے پروگرام «الإمام الطيب» کی 2025ء کی دوسری قسط میں گفتگو کے دوران – واضح کیا کہ: "اگرچہ فلسطینی عوام کو طویل عرصے سے ظلم و ستم کا سامنا رہا ہے، پھر بھی ہم نے دیکھا کہ وہ ثابت قدم، سر بلند اور اپنی سرزمین سے وابستہ رہے۔ وہ ہر بار ایسے لوٹتے ہیں جیسے کوئی طوفان ہو، گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ بلاشبہ، یہی وہ قوم ہے جو واقعی کامیاب ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ: "صہیونیوں کے ذہن میں یہ بات تھی کہ ہمارے اہلِ غزہ اتنے مظالم کو برداشت نہیں کر پائیں گے، اور ایک یا دو ماہ بعد غزہ جلی ہوئی اور ختم شدہ حالت میں ان کے آگے جھک جائے گا، ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، حالانکہ اس قوم کے پاس نہ ہتھیار ہیں اور نہ ہی کوئی دنیاوی مددگار، سوائے ان کے بھائیوں کی دعاؤں کے جو ان کے لیے استقامت اور فتح کی دعا کرتے ہیں۔


شیخ الأزہر نے مزید کہا کہ "یہ صمود کوئی معمولی صمود نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ایسا صمود تھا جو فخر اور چیلنج سے بھرا ہوا تھا، اور اس کا کوئی اور مطلب نہیں سوائے اس کے کہ اللہ نے ان کمزوروں کی دعاؤں کو سنا۔ یہ بات قرآن میں بھی ہے: {اگر تم میں بیس صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے}، یہ کوئی خیالی بات نہیں بلکہ قرآن میں بیان کی گئی حقیقت ہے۔

انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مسلمانوں کی جنگ دراصل اپنے عقیدے اور حق کا دفاع ہے، اور تاریخ ہمیشہ اہلِ حق کا ساتھ دیتی ہے اور انہیں اہلِ باطل پر غالب کرتی ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اہلِ غزہ – جو کہ اہلِ حق ہیں – کس ظلم و جبر کا شکار ہوئے۔ بلکہ بعض لمحے ایسے بھی آئے کہ ہم اس قابل نہ تھے کہ ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے اسکرین پر دیکھ سکیں – قتل، جسموں کے ٹکڑے، خوف و ہراس کی تصاویر – جن کا تصور بھی ہم 21ویں صدی میں نہیں کر سکتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ: "ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ یہ صدی جمہوریت، امن، آزادی اور انسانی حقوق کی صدی ہوگی، مگر غزہ پر ہونے والے حملے نے ثابت کر دیا کہ یہ صدی دراصل پرانی غلامی کی واپسی کی صدی ہے۔



امام طیب نے وضاحت کی کہ یہ ضروری نہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنى کے معانی سے واقف ہو تاکہ ان کے ذریعے دعا کرے، بلکہ صرف ان کو اپنے دعا میں دہرانا کافی ہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {ولله الأسماء الحسنى فادعوه بها} (اور اللہ ہی کے لیے اچھے نام ہیں، پس ان کے ذریعے اسے پکارو)، اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ پہلے ان کو جان لو یا سمجھ لو، پھر ان کے ذریعے دعا کرو؛ لہٰذا بغیر معانی کو سمجھے بھی ان اسماء کے ساتھ دعا کافی ہے، کیونکہ ان معانی کا سمجھنا ایک خاص علم اور مطالعہ کا تقاضا کرتا ہے۔
انہوں نے مزید بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنى جب درست طریقے سے ادا کیے جائیں تو ان کا ایک خاص اثر ہوتا ہے، چاہے کہنے والا ان کا مطلب سمجھے یا نہ سمجھے۔ ہر نام کا ایک مخصوص اثر ہوتا ہے، اور ان اسماء میں راز پوشیدہ ہیں، جو دل سے، غور و فکر کے ساتھ، اللہ کو یاد کرنے اور اس سے ڈرنے والے شخص کی زبان سے ادا ہوں تو ان کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے آثار میں آیا ہے کہ کائنات ساری انہی اسماء کے اثرات سے قائم ہے۔
اور آپ  نے اپنی بات کا اختتام اس پر کیا کہ دعا کے لیے یہ شرط نہیں کہ وہ اللہ کے اسماء الحسنى کے ساتھ ہی کی جائے، بلکہ بغیر اسماء الحسنى کے بھی دعا کرنا جائز ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {ادعوا ربكم تضرعًا وخفية} (اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے پکارو)، اور یہاں دعا کو اللہ کے اسماء الحسنى سے مشروط نہیں کیا گیا۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی دعائیں ایسی ہیں جن میں اسماء الحسنى شامل نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی عطا بہت وسیع ہے، وہ ہر اُس شخص کو نوازتا ہے جو اس کے سامنے عاجزی سے ہاتھ پھیلائے، چاہے وہ دعا اسماء الحسنى کے ذریعے ہو یا بغیر ان کے، بشرطیکہ دعا کرنے والا یہ یقین رکھے کہ اللہ ہی اس کا واحد سہارا ہے۔ 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025