سال 2025 کے لیے "امام الطیب" کی دوسری قسط میں آپ نے کہا جو اختلاف اہل سُنت اور شیعہ کے درمیان ہوا تھا، وہ فکر اور رائے میں تھا، دین میں نہیں۔
شیخ الأزہر: "امت مسلمہ کو اس وقت سب سے زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے تاکہ عصری چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے اور اپنے دشمنوں پر فتح حاصل کی جا سکے"
امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الأزہر اور چیرمین مسلم کونسل آف ایلڈرز نے کہا کہ: "ہمارے اور ہمارے شیعہ بھائیوں کے درمیان جو اختلاف ہے، وہ فکر اور رائے کا اختلاف ہے، دین کا اختلاف نہیں۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی معجزانہ پیش گوئی میں بیان کی، جس میں انہوں نے مستقبل کا اندازہ لگایا اور ہمیں انتشار کے خطرات سے آگاہ کیا، جب فرمایا: 'تم میں بھی وہی مرض آ جائے گا جو تم سے پہلے امتوں میں آیا تھا، حسد اور بغض'، یعنی ہمارے کچھ ممالک ایک دوسرے سے حسد کریں گے، اور ہمارے کچھ لوگ ایک دوسرے سے حسد کریں گے۔ پھر فرمایا: 'یہ وہ چیز ہے جو مونڈھ دیتی ہے، لیکن اس سے مراد دین کا مونڈھنا ہے'، پھر اس کی تفسیر بیان کی کہ اس سے مراد بالوں کا حلق نہیں ہے بلکہ دین کا خاتمہ ہے پھر فرمایا: 'قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، تم جنت میں نہیں داخل ہو گے جب تک کہ تم ایمان نہ لاؤ، اور ایمان نہیں لاؤ گے جب تک کہ تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جو اس محبت کو تمہارے درمیان قائم کرے؟ وہ ہے تمہارے درمیان سلام کا پھیلانا'، یعنی آپس میں سلامتی قائم رکھو اور مل کر اس میں رہو۔"
امام طیب نے اپنے رمضان پروگرام "الإمام الطيب" کی دوسری قسط میں بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے درمیان بھی کچھ اختلافات ہوئے تھے، جن میں سے ایک خلافت پر اختلاف تھا، اور اس کے بارے میں کہا گیا: "اسلام میں کبھی بھی کوئی تلوار اس معاملے پر اتنی نہیں کھینچی گئی جتنی خلافت کے معاملے پر۔" تاہم، انہوں نے اس دوران اپنے آپس میں تلواریں نہیں نکالیں، اور اہل سنت اور شیعہ کا اختلاف فکر میں تھا دین پر نہیں تھا۔ امام طیب نے مزید کہا کہ جو بھی دعوت کا کام کرے، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو یاد رکھنا چاہیے، جب آپ نے فرمایا: "جو شخص ہماری نماز پڑھے، ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے، وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری ہے، تو اس کی ذمہ داری میں اللہ اور اس کے رسول کی کوئی بے حرمتی نہ کرو۔"
شیخ الأزہر نے اس بات پر زور دیا کہ امت اسلامیہ کو اس وقت سب سے زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ دور کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے اور دشمنوں کے خلاف کامیابی حاصل کی جا سکے۔ دنیا کے کئی عالمی ادارے متحد ہیں، حالانکہ ان کے درمیان کوئی مشترکہ بات نہیں، جیسے یورپی یونین کی ریاستیں، جو صرف اس لیے متحد ہیں کیونکہ انہیں یہ عملی ضروریات کے تحت درکار ہے۔ ہم ان سے زیادہ اس اتحاد کے حق دار ہیں، کیونکہ ہمارے درمیان بے شمار مشترکہ چیزیں ہیں۔
اختتام میں آپ نے کہا کہ یہ اختلاف اس وقت کا ایک قدرتی امر تھا، جس میں ایک دوسرے کو فوقیت دینے کے لیے عملی حالات نے اسے مجبور کیا تھا۔ اس اختلاف کو ہمارے درمیان تکفیر کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اس نوعیت کے اختلاف میں رحمت ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی اختلافات تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اختلافات کو تسلیم کیا، لیکن کسی صحابی نے دوسرے صحابی کی تکفیر نہیں کیا۔ ہم اہلِ سنت کے درمیان بھی کئی مسائل میں اختلافات ہیں، جیسے مذہب حنفی ، مذہب شافعی ، اور دیگر مذاہب میں، ان میں بھی مختلف امور پر اختلافات ہیں۔