پیس میکرز یوتھ فورم

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png
مشرق اور مغرب کے درمیان مکالمے کے دوروں کے فریم ورک کے اندر، جس کی پہل امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر نے کئی سال قبل شروع کی تھی۔ جس کا مقصد مشرق اور مغرب کے درمیان بات چیت اور تعاون کے پُل تعمیر کرنا تھا۔ اس پر ابوظہبی میں الازہر اور کینٹربری کے آرچڈیوسیز کے درمیان بات چیت کے پچھلے دور میں اتفاق کیا گیا تھا۔ کہ تخلیقی اقدامات کے ساتھ نوجوانوں کا ایک ایلیٹ گروپ مشرق اور مغرب کے درمیان مکالمے کے ایک دور کی قیادت کرے گا۔ جس میں کوششوں کو مربوط کرنے اور عصری مسائل جیسے کہ شہریت، امن اور انتہا پسندانہ نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے نظریات کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اور نوجوانوں کو ضم کرنے اور اس فریم ورک میں شروع کیے گئے اقدامات پر عمل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔

اس فورم کا مقصد مشرق اور مغرب سے نوجوانوں کے ورکنگ گروپس بنانا تھا۔ جو وسیع ورکشاپس کریں۔ اور بہت سے اہم خیالات اور موضوعات پر گفتگو کریں جن کے انتخاب میں نوجوانوں نے بھی حصہ لیا۔ یہ ایک منصفانہ امن کی تعمیر اور بقائے باہمی اور انضمام کی ثقافت کو پھیلانے میں ان کے کردار اور اس مستقبل کی تخلیق میں کس طرح حصہ لیا جائے جس کی وہ امید کرتے  سے متعلق ہے۔
فورم کے مباحثوں نے عصری مسائل سے نمٹنے کی کوششوں کو مربوط کرنے کے لیے ایک عملی نقطہ نظر تیار کرنے پر توجہ مرکوز کی، جس میں نوجوان ایک اہم جز ہیں۔ جیسے پرامن بقائے باہمی، انضمام، شہریت، انتہا پسند نظریے کا مقابلہ کرنا، اور وژن اور اقدامات کو آگے بڑھانا تاکہ متعلقہ ادارے اس کے بعد انہیں اپنائیں گے اور ان کی حمایت کریں گے اور مستقبل میں ان کے نفاذ کے لیے عملی منصوبے تیار کریں گے۔ اور نوجوانوں کے کام کرنے والے گروپ کے مرکز کے طور پر کام کرنا، جس میں دنیا بھر سے عزم اور قابل قدر نظر رکھنے والے نوجوان مستقبل میں شامل ہوں گے، تاکہ اچھی اور امن کی ایک بہتر دنیا کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
نوجوانوں کے اس ممتاز اجتماع کا مقصد امن کے خواہاں نوجوانوں کی ایک عالمی ٹیم بنانا ہے۔ تاکہ ان  اقدامات اور تقریبات میں حصہ لیا جائے جنہیں کینٹربری کے آرکڈیوسیز کے تعاون سے الازہر الشریف اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کی حمایت حاصل ہے۔ تاکہ دنیا بھر میں ان نوجوانوں اور ان کے ساتھیوں کے ذریعہ اس پر عمل درآمد کیا جائے تاکہ ایک بہتر دنیا کی تعمیر ہو جس میں ہر کوئی نیکی اور امن کے ساتھ زندگی بسر کرے۔
فورم میں عرب دنیا کے 25 نوجوانوں نے شرکت کی، جن کا انتخاب الازہر الشریف اور مسلم کونسل آف ایلڈرز نے کیا، اور یورپ سے تعلق رکھنے والے 25 نوجوان، جن کا انتخاب کینٹربری، لندن نے کیا۔ اس کے لیے کچھ معیار تھے جن میں سے سب سے اہم یہ ہیں: کہ شرکاء کی عمر 20 سے 25 سال کے درمیان ہو، اور امیدوار کے پاس کمیونٹی، طالب علم، ثقافتی یا مذہبی سرگرمی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں مہارت بھی ہو، اور فورم میں موثر شرکت کے لیے ضروری مواصلاتی مہارتیں بھی ہوں۔ الازہر اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کی طرف سے منتخب ہونے والے نوجوان مختلف عرب ممالک سے ہوں۔ ان کے مذہبی، تعلیمی اور ثقافتی پس منظر کو متنوع بنانے میں بھی دلچسپی تھی، جو مشرق کی ثروت اور اس کی فکری اور ثقافتی جڑوں کی کثرت کی عکاسی کرتی ہو۔
الازہر شریف نے پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب شیخ الازہر الشریف کی سرپرستی میں متعدد تیار ورکشاپس کا انعقاد کیا جس میں فورم میں شرکت کرنے والے مصر اور عرب ممالک کے  نوجوانوں کے ساتھ مکالمہ کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ مذاہب کی انسانی تصور رواداری اور مکالمے کی اقدار کو کیسے مستحکم کیا جائے، امن کے قیام میں اپنا حصہ کیسے ڈالا جائے، اور مذہبی اداروں کے درمیان موثر مکالمے کے ماڈلز کا جائزہ لیا جائے۔
فورم کی سرگرمیوں کا آغاز 8 جولائی 2018 کو کیا گیا تھا اور 50 نوجوانوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں ایک ہفتے کے تربیتی کورس میں حصہ لیا تھا۔ جس کا ‎ مقصد ان کے درمیان انسانی رابطے کو بڑھانا  اور فورم کے ذریعے شامل کردہ مسائل کے بارے میں خیالات، علم اور تاثرات کا تبادلہ کرنا تھا۔ کورس کے پروگرام میں متعدد لیکچرز اور ورکشاپس بھی شامل تھیں جن کا مقصد نوجوانوں کے پرامن بقائے باہمی کے مسائل سے نمٹنے، تشدد کا مقابلہ کرنے، تنازعات کو کم کرنے اور سماجی کاموں میں فعال طور پر شامل ہونے کی صلاحیتوں کو بڑھانا تھا۔
اس کے بعد نوجوان لیکچرز اور ورکشاپس کی تکمیل کے لیے لندن کے "لامبیث محل" چلے گئے۔ اس کے بعد گرینڈ امام، ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر، مسلم کی کونسل آف ایلڈرز کے صدر، اور کینٹربری کے برٹش چرچ کے آرچ بشپ ڈاکٹر جسٹن ویلبی کے ساتھ آخری کھلی ملاقات ہوئی، جس کا مقصد مذہبی رہنما نوجوانوں کے خیالات، تجربات، اقدامات اور تجاویز کو سننا تھا۔
یہ فورم مشرق اور مغرب کے درمیان مکالمے کے میدان میں نوجوانوں کے اہم تجربات میں سے ایک ہے، اور یہ ایک حقیقی بنیاد ہے جس پر مستقبل میں دنیا کے کئی ممالک میں کام کیا جا سکتا ہے۔


پیس میکرز یوتھ فورم میں گرینڈ امام کا خطاب

بسم الله الرحمن الرحيم
اے اس هال ميں جمع  هونے والے اور دنيا كے مشرق ومغرب كے نوجوانوں كى نمائندگى كرنے والے نوجوانو! ميں  آپ كو سلام عرض كررها هوں اور آپ كے اندر موجود روشن فكر، پخته اور مضبوط ارادے فكر وخيال اور امنگ  وحوصلے كو سلامى پيش  كررها هوں، ميرى نوجوانى ختم هوچكى هے، اُس كا سورج غروب هوچكا هے اس كے خواب، اس كى آرزوئيں، اس کے عزم وارادے اور اس كى  ثابت قدمى ختم هوچكى هے اس لئے ميں آپ جيسا نهيں رها اور مجھے حق نهيں كه آپ كى ترجمانى كروں ليكن  اس نوجوان كى مصيبتوں كى وجه سے مجھے، ميرا اور ميرى پيڑھى كا جو غم ملا اور جس كو ليكر  ميں ادھيڑ عمرى تك پهنچا وه آج بھى مجھے اور ميرے احساسات وجذبات كو بوجھل كررہاهے، وه ہمیں حيرت زده كررها هے اور سوالات اٹھا رها هے بلكه جو كچھ هوا اور جو هورها هے اس پردعوت  تعجب بھى دے رها هے  كيونكه ميرا تعلق  ايسى پيڑھى سے هے   جس كومشرق عربى اور مشرق اسلامى ميں جنگوں كى شكار پيڑھى كها جا سكتا هے، يه وه پيڑھى  هے جس پر اب ستر سال سے زائد كا عرصه گزر چكا هے، اس نے  جنگى طياروں كى گونج  سنى هے، بموں كے پھٹنے كى آوازيں سنى هيں،   بارود اور گيسوں كى مهك سونگھى هے،  اس نے خون كى جو نهريں ديكھى  هيں، اور هلاك شدگان كى لاشوں كے جو ٹكرے ديكھے هيں وه موسيقى، ترانے اور اشعار سننے، فن كى جماليات ديكھنے اور بلبلوں كى چهچهاهٹ اور كبوتروں كى غٹرغوں سننے سے كهيں زياده سخت اور طاقت ور هيں۔ 
ميں 1946 ميں پيدا هوا، اس وقت  دوسرى جنگ عظيم كى مصيبتوں سے دنيا كے آنسوں ابھى خشك نهيں هوئے تھے، كيونكه  يه ايسى جنگ تھى جس ميں  جلد بازى ميں كئے جانے والے ايسے ظالمانه فيصلوں كى وجه سے يورپ     پچهتر ملين سے زائد نوجوان لڑكوں لڑكيوں بچوں، ادھيڑ عمر كے لوگوں اور  بوڑھوں سے محروم هوگيا، اورجن ميں انسان كى حرمت  اور اس كے اُس وجود كى حرمت اور اس كے احترام كا پاس ولحاظ نهيں ركھا گيا جس كى الله تعالى نے سات آسمانوں   كے اوپر سے تكريم كى اور اس كو اپنى ديگر تمام مخلوقات پر فضيلت بخشى، اسى طرح جنگ كے ان ظالمانه فيصلوں نے اس خون كوسستا سمجھ ليا جس كى حفاظت، تمام اديان ومذاهب، شريعتوں اور تهذيب يافته  انسانى اخلاق نے كى هے، اور حق وانصاف   كے علاوه كسى دوسرى جگه اس كا بهانا حرام قرار ديا هے۔
ميرے بچپن كے صرف دس سال هي امن وسلامتى كے ساتھ گزرےتھے كه ميرى اس بستى ميں خوف وهراس كى  فضا قائم هوگئى جس ميں بادشاهوں اور رانيوں كى وادى كے آثار ِقديمه پائے جاتے هيں اور يه خوبصورت موروثى شهر اقصر كے مغربى حصه ميں واقع هے، چنانچه هم نے گوله بارى اور تباهى وبربادى كى انتهائى تاريك راتيں گزاريں، اور ابھى دس سال بھى نهيں گزرے تھے كه پچھلى جنگ سے بھى زياده سخت جنگ نے هميں گھير ليا، اس كے بعد هم تيسرى جنگ  ميں داخل هوئے جس ميں هم نے اپنى عزت وكرامت اور مقبوضه زمين واپس لى۔
دنيا كے مشرق ومغرب كے عوام جس پرامن زندگى سے لطف اندوز هيں  وه زندگى عالم اسلامى اور عالم عربى كے عوام كو  ابھى كچھ هي دنوں ميسر هوئى تھى  كه وه پھر سے چھين لى گئى، اور هم دهشت گردى كى جنگ كے نام سے ايك نئى جنگ ميں داخل هوگئے، يه نئى جنگ سرحدوں كو نهيں جانتى، اور يه گھروں، سڑكوں، تجارت گاهوں، اسكولوں، تھيٹروں، كلبس اور جمگھٹوں ميں موجود بچوں، عورتوں، نوجوانوں اور بوڑھوں سب كو  اپنى ليبٹ ميں لے ليتى هے، حتى كه مسجدوں، گرجاگھروں اور ديگر عبادت گاهوں ميں عبادت كرنے والے مرد وزن سب كو اپنا نشانه بنا ليتى هے، اور يه لوگ نماز اور عبادت کى حالت ميں اپنے بچوں سميت خون ميں شرابور هوجاتے هيں، اور اس  نئے خوف اور رعب  كے ساتھ دنيا كا كوئى بھى آدمى نه تو اپنے بارے ميں بے خوف هے اور نه اپنے خاندان كے بارے ميں مطمئن هے۔
   اميد تھى كه اكيسويں صدى كے آغاز كے ساتھ يه دهشت گردى سمٹ جائے گى اور متمدن اور ترقى يافته  دنيا  جانوں  اور جسموں كے ساتھ  كھلواڑ كرنے والى اس صورتحال كو ايك ايسى بربرى صورتحال قرار دے گى جو اس صدى كے انسان كے شايانِ شاں نهيں جس ميں سائنس، اقتصاد فلسفه لٹريچر فن اور سياست وغيره جيسى چيزيں بےحد ترقى كر چكى هيں ليكن اس صدى كے آغاز ميں گياره ستمبر كے اُس واقعه نے اس اميد پر پانى پھير ديا جس ميں  بے گناه افراد هلاك هوئے اور جس نے مشرق ومغرب كے تمام لوگوں كو رُلا ديا،  اور ديكھتے  ديكھتے حالات پے چيده سے پے چيده ترہو گئے  اور اسلام   اور تمام مسلمانوں كو اس دهشت گردى كا پهلا ذمه دار قرار ديا گيا، اور پھر اوراق گڈ مڈ هوگئے اور انسانى    بھائى چارگى اور سلامتى كى دعوت دينے والا يه دين انديشوں  اور گھبراهٹوں كا سر چشمه بن گيا، اور اسلاموفوبيا كى اس صورتحال سے آپ مجھ سے زياده واقف هيں جس كے بارے ميں ميں صرف يه كهنا چاهتا هوں  كه يه  ايك ايسى سوچى سمجھى اور مصنوعى صورتحال هے جو اس كے بهت  سے منصف تجزيه کاروں كے ذهنوں سے مخفى نهيں، اور ميں انتهائى اختصار كے ساتھ صرف يه كهنا چاهتا هوں كه اگر يه بات صحيح هوتى كه اسلام دهشت گردى كا مذهب هے تو يه بات يقينى تھى كه اس دهشت گردى كا شكار هونے والے تمام لوگ غير مسلم هوتے، ليكن حقيقت يه هے كه مسلمان  ماضى ميں بھى اس دهشت گردى كا شكار هوتے رهے، اور آج بھى هورهے هيں، اور اس كے اسلحوں اور قتل وهلاكت كے وحشيانه طريقے كا نشانه مسلمان هي بن رهے هيں، اور مسلمانوں نے هي اس كى قيمت چكائى اور وه آج بھى چكا رهے هيں، ان هي كى جانیں گئيں، ان هي كے گھر تباه هوئے اور وهى بے گھر  هوئے، اور يه سلسله آج بھى جارى هے، اور حقيقت  تو يه هے كه  اس دهشت گردى كى زد ميں آكر مسلمانوں كى جو تعداد هلاك هوئی هے اُس كے مقابلے ميں اس سے هلاك هونے والے غير مسلموں كى تعداد نا كے برابر هے،  اور هم مسلمانوں كے نزديك جس شخص نے كسى ايك جان كو ظلم وزيادتى كركے قتل كيا تو گويا اس نے تمام لوگوں  كو قتل كيا، اور جس نے كسى ايك جان كو بچايا اور اس سے موت كا خطره دور كيا تو گويا اُس نے تمام لوگوں كو زندگى بخشى، اور میں يهاں ايك سوال كرنا چاهتا هوں كه كيا كوئى عقل يه تصور كر سكتى هے كه مثال كے طور پر  عيسائى مذهب كى طرف منسوب كوئى دهشت گردى سامنے آئے اور اس ميں هلاك هونے والے اكثر لوگ نصارى هوں؟
ان حالات ميں منطق يهى كهتى هے كه كوئى ضرورى نهيں كه دهشت گردى اس مذهب كى ترجمانى كرے جس كے بینر كے نيچے وه لوگوں كو قتل   كرتى هے،   بلكه سچ تو يه  هے كه دهشت گردى هي مذاهب كى نصوص كى تاويل وتفسير ميں خيانت جھوٹ اور دھوكے بازى سے كام لينے كے بعد مذاهب كو اچك كر ان كو اپنے پاس گروى ركھ رهى هے تاكه ان كے ذريعه ايسے جرائم كا ارتكاب كرے جن كو اديان ومذاهب اور ان مقدس كتابوں نے حرام قرار ديا هے جن كو وه لوگ اپنے  ايك هاتھ سے پكڑتے هيں اور دوسرے هاتھ سے اس كى نصوص سے كھلواڑ كرتے هيں  ۔
كيا يه عجيب وغريب تضاد اس بات كى دليل نهيں هے كه دهشت گردى نه تو اديان ومذاهب كى نمائندگى كر رهى هے اور نه اُن كے پيروكاروں كى۔
يه ايسى نفسياتى بيمارى اور فكرى نافرماني سے زياده مشابه هے جو اديان ومذاهب كى نصوص ميں ايسى چيزيں تلاش كرنے كى كوشش كررهى هے جو خود  اس كے حق ميں اور اس كے پيروكاروں كے حق ميں اس كے جرائم كا وجه جواز پيش كرے، اس لئے كسى نے سچ كها هے كه دهشت گردى كا نه تو كوئى دين هے اور نه هي  اس كا كوئى وطن هے، اور همارى ذمه دارى هے كه هم اُس كو روكيں اس كى نقاب كشائى كريں اور اُس كے قبضے سے اديان ومذاهب كو آزاد كرانے كے لئے پورى  طاقت وقوت استعمال كريں۔
اے نوجوانو! آپ اس بات كى تصديق نه كريں كه آسمانى اديان  ومذاهب هي لوگوں كے درميان جنگوں اور مصيبتوں كا سبب هيں اور ضرورى هے كه هم ان سے دست كش هوجائيں  اور ان كى جگه سائنسى ٹكنكى اور فنى ترقى كو اختيار كريں؛   كيونكه اديان ومذاهب  پر ايمان ركھنے والوں كے نزديك يه ايك ايسا باطل مسئله هے  جس پر  اس وقت  بحث ومباحثہ كرنے كى گنجائش نهيں۔
اور ميرا خيال  اور اديان ومذاهب پر ايمان ركھنے والے  تمام لوگوں كا خيال تو يه هے كه    آج  كے انسان كى زبوں حالى اور پريشانى كا سب سے بڑا سبب، مذهب، اس كى قدروں اور اُس كے اخلاق كا غائب هونا هے   اور يه كه همارى آج كى تهذيب نے انسانى ضرورت کى بهت سى چيزوں كو كھوديا هے، اور قريب هے كه يه تهذيب برائے نام باقى رهے كيونكه اس نے الهى هدايت سے منھ موڑ ليا هے، بلكه اس زمانے كے بهت سے دانشوروں كے نزديك يه بات يقينى هوگئى هے كه انسانى اخوت وبھائى چارگى ايسى اميد كے مشابه هوگئى هے جس كا ايسى زندگى ميں بر آنا مشكل هے جو افراد اور قوموں كے مابين تعاون كے تعلقات خراب كرنے اور زندگى كى بهار مكدر كرنے والے ظلم وستم اور مصيبتوں سے پرهے۔
نوجوانو! اگر آپ كسى مذهب كے نام پر بهائے جانے والے خون كى ذمه داري اس مذهب پر ڈالتے هيں تو پھر اس خون كى ذمه دارى همارى نئى تهذيب پر ڈاليں جو گذشته صدى ميں يورپ، ايشيا اور افريقه ميں بهايا گيا بلكه ان جنگوں كى ذمه دارى بھى همارى موجوده تهذيب پر هي ڈاليں جو اس صدى كے آغاز ميں شروع هوئيں اور اب بھى ان كا سلسله جارى هے اور يه اب تك هرچيز كو اپنى لپيٹ ميں لے رهى هيں۔
كيا هم ميں سے كوئى، بچوں عورتوں اور مردوں كى ان بے شمار لاشوں سے چشم پوشى كر سكتا هے جو ملبوں كے نيچے اور درياوں اور سمندروں كے ساحلوں پر پڑى هوتى هيں گويا وه عام تصويريں هيں جنهيں لوگ كهانا كهانے کی حلت میں بھی ديكھتے هيں ،  توكيا اس سے يه پتا نهيں چلتا كه انسانى ضمير مرده هوچكا هے يا بے هوشى كى ايسى نازك حالت ميں داخل هوچكا هے كه هميں پتا نهيں كه اس ضمير كا انجام كيا هوگا؟
يهاں يورپ اور جنوب مشرقى ايشيا كى مختلف محفلوں اور اجلاسوں ميں ميں نے جو بات كهى هے اس كو دهرانے كا كوئى فائده نهيں.اور وه يه كه مسلم علما  دانشوروں اور سياست دانوں نے متفقه طور پر گياره ستمبر كے واقعے اور اس كے بعد پيش آنے والے واقعات كى مذمت كى اور سياه دهشت گردى كے تمام واقعات اور ان كا ارتكاب كرنے والوں سے اپنى براءت ظاهر كى، اور ذرائع ابلاغ، كتابوں، مقالات، اور بين الاقوامى سه ميناروں اور كانفرنسوں ميں اسے كلى طور پر مسترد كيا، ليكن ان گھناونے جرائم سے اسلام اور مسلمانوں كو برى كرنے كے لئے كى جانے والى كوششوں كے باوجود بهت سے مغربي نوجوانوں كے ذهنوں  ميں اسلاموفوبيا كى تصوير اب تك آويزاں هے. اور  اس كى وجه سے آپ كا وه پيغام كسى نه كسى شكل ميں مشكل هوجاتا هے جسے آپ مشرق ومغرب كے درميان بات چيت كا عمل گهره بنانے كے ليئے لوگوں كو دينا چاهتے هيں ۔
اے نوجوانو! 
آپ كو يه بات ياد دلانے كى ضرورت نهيں كه ان دنوں بعض سياسى نظريات استعمال كرنے كى وجه سے افق ميں سياه بادل منڈ لا رهے هيں اور ان ميں " تهذيبوں كى كشمكش" "تاريخ كے خاتمے" اور " عالم كارى" جيسے وه سياسى نظريات سرفهرست هيں جو لوگوں كى جانوں  كو اسلحوں كى  معاشيات سے          با آسانى تبديل  كررهى هيں۔
موجوده صورتحال ميں اس كے سوا كوئى اور چاره نهيں كه دنيا كا عقلمند طبقه ان پاليسيوں پر نظر ثانى كرے، ان كى روش درست كرے اور لوگوں كے درميان حق وانصاف عدل ومساوات اور دوسرے كا احترام كرنے جيسى قدريں پھر واپس كرے تاكه موت، فقر وفاقے، جهالت، بيمارى، مايوسى اور نا اميدى سے دوچار تمام قوموں كو بچايا سكے۔
هميں يه جان لينا چاهئے كه اگر گھمنڈ وتكبر اور لوگوں كو خادم وآقا، تهذيب يافته  اور پسمانده،  اور سفيد وسياه ميں تقسيم كرنے كے رجحان سے دور هوكر ان مصيبتوں كا سنجيدگى سے بين الاقوامى علاج نهيں كيا گيا تو عقلمندوں كو اس ميں ذره برابر شك نهيں كه يه انتهائى تيزى سے ايك جگه سے دوسرى جگه منتقل هوں گى اور سرحدوں اور بر اعظموں كو پار كر جائيں گى، اور يه هم سب كو جهالت اور تاريكى كے زمانوں ميں با آسانى واپس لے جائيں گى۔
ميرے خيال سے اس سخت راستے كا پهلا صحيح اور ضرورى قدم يه هے كه مشرق اور مغرب ايك مشتركه انسانى منفعت كے لئے ايك ساتھ جمع هوں، اور اس كا مثالى وسيله ايسى بات چيت هے  جو سب سے پهلے عرب اور مسلمانوں كے آئينے ميں مغرب اور مغربي تهذيب كى تصوير  درست كرے، اور مغرب كے آئينے ميں عرب اور مسلمانوں كى تصوير درست كرے  تاكه اس كے بعد ايك دوسرے سے متعارف هونے، ايك دوسرے كو معاف كرنے اور متفقه جگهيں تلاش كرنے كے دروازے كھليں، خيال رهے كه  اديان ومذاهب اور عقائد كے ما بين متفقه  جگهيں بهت هيں۔
اور مجھے ذره برابر شك نهيں كه آپ اس شعلے كو اٹھانے  اور اس لمبے راسته كا سفر شروع كرنے كى زياده صلاحيت ركھتے هيں۔
ميں ان لوگوں ميں هوں جو اس بات پر پخته ايمان ركھتے هيں كه وه الله جس نے هميں اپنى رحمت اور لطف وكرم سے پيدا كيا وه اپنى مخلوق كو هرگز بيهودوں كى بيهودگى اور شيطانوں كى شيطانى كے حواله نهيں كرے گا ، اور وه ايسے وسائل فراهم كرنے پر قادر هے جو انسان كو ساحلِ سلامتى پر واپس لے جائيں، اور اے نوجوانو! بلاشبه آپ هي جائے اميد وآرزو هيں۔
آپ حضرات نے ميرى بات بغور سنى، آپ كا بهت بهت شكريه۔
والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته
يه تقرير 3 ذي قعده 1439ھ مطابق 16 جولائى 2018ع
بروز جمعه كى شام شهر لندن ميں تيار كى گئى
                                                                                        احمد الطيب 
شيخ الازهر 


سیمینارز اور کانفرنسز

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024