شیخ الازہر نے قبرص کی اسپیکر پارلیمنٹ سے ملاقات کی تاکہ باہمی تعاون کو فروغ دینے کے طریقوں پر بات چیت کی جا سکے۔
امامِ اکبر:
اسلام کے پیغام کا جوہر تمام انسانوں کے درمیان امن کا فروغ اور اس کا قیام ہے۔
آج دنیا جن مسائل کا شکار ہے، ان کا حل صرف دین کی طرف واپسی میں ہے۔
قبرص کی اسپیکر پارلیمنٹ نے اپنے ملک کی طرف سے مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے اور امن و بھائی چارے کی اقدار کے فروغ میں شیخ الازہر کی کاوشوں کو سراہا۔
منگل کے روز، عزت مآب پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الازہر شریف نے مشیخہ ازہر میں قبرص کی اسپیکر پارلیمنٹ محترمہ انیتا دیمتریو کا استقبال کیا۔ اس ملاقات کا مقصد علمی شعبوں میں باہمی تعاون کے طریقے تلاش کرنا تھا۔
شیخ الازہر نے قبرصی پارلیمنٹ کی اسپیکر اور ان کے ہمراہ وفد کا ازہر میں خیرمقدم کیا اور کہا کہ اسلام کے پیغام کا بنیادی مقصد امن کو عام کرنا اور تمام انسانوں کے درمیان اس کا قیام ہے۔ ازہر نے ہمیشہ اپنی طویل تاریخ میں اسی پیغام کو پھیلایا ہے۔ چنانچہ اس نے مصر میں کلیساؤں کے ساتھ مل کر "بیت العائلة المصریة" مصری فیملی ہاؤس قائم کیا تاکہ مذہبی تعصب اور فرقہ وارانہ فتنے ختم کیے جا سکیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر دیگر مذہبی اور ثقافتی اداروں کے ساتھ بھی تعاون کیا گیا، جیسے کہ کنٹربری چرچ کے ساتھ "امن ساز نوجوانوں کا فورم" کا انعقاد اور پیارے بھائی اور دوست کیتھولک چرچ کے پوپ فرانسس جن کی جلد شفایابی کے ہم خواہ خواں ہیں تاکہ بقائے باہمی کو پھیلانے اور انسانیت کی خدمت کے اپنے راستے کو مکمل کرنے کے لیے جلد واپس لوٹیں، کے ساتھ "انسانی بھائی چارے کی دستاویز" پر دستخط۔ شامل ہیں۔
شیخ الازہر نے زور دیا کہ دنیا کے موجودہ حالات کا حل صرف اسی میں ہے کہ ہم دین کی طرف رجوع کریں، اور دین میں انسان کی عزت و کرامت کی حفاظت کرنے والے اخلاقی اصول اور ضابطے کو زندہ کریں۔ بدقسمتی سے دین کو اکثر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ دنیا کو آج صحیح مذہبی تعلیمات کی اشد ضرورت ہے جو سب کے لیے خیر کا پیغام رکھتی ہوں، نہ کہ ذاتی یا غلط مفاہیم پر مبنی ہوں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جب تک بین الاقوامی انصاف کا فقدان رہے گا اور دوہرا معیار اپنایا جاتا رہے گا، دنیا ایک ایسے جنگل میں تبدیل ہو جائے گی جہاں طاقتور کمزور کو کھا جاتا ہے۔
اپنی طرف سے، قبرص کی اسپیکر پارلیمنٹ نے اپنے ملک کی طرف سے شیخ الازہر کی مذاہب کے درمیان مکالمہ، امن اور بھائی چارے کی اقدار کو فروغ دینے کی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ مصر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کی ایک مثال ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس میدان میں الازہر کا کردار نہایت اہم ہے۔ انہوں نے قبرص کے ائمہ کی تربیت کے سلسلے میں الازہر کے تجربے سے استفادہ کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تاکہ قبرصی معاشرے میں امن، ہم آہنگی اور بقائے باہمی کی فضا کو مزید فروغ دیا جا سکے۔