شیخ الازہر: "الکبیر" خدا کے خوبصورت ناموں میں سے ایک ہے جو قرآن، سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب.png

خدا کا نام "الکبیر" ہمیں بتاتا ہے کہ وہ قدرت میں سب سے اعلیٰ اور ذات میں عظیم ہے۔
 
جو کوئی بھی عربی زبان پر غور کرے گا وہ اسے انتہائی متنوع اور بھرپور پائے گا۔
 
اپنے بچوں کو صغر سنی میں ہی قرآن حفظ کرا لیں، کیونکہ اس سے ان کی زبان مضبوط ہو جائے گی اور ان کی لسانی حس کو تقویت ملے گی۔
 
شیخ الازہر نے کہا: "الکبیر" خدا کے خوبصورت ناموں میں سے ایک ہے اللہ تعالی کے اس فرمان کے مطابق:  { وہ ہر نہاں اور عیاں کو جاننے والا ہے سب سے برتر (اور) اعلیٰ رتبہ والا ہے}۔
"الکبیر" نام دو صیغوں میں وارد ہوا ہے۔ پہلا "الکبیر" کی شکل میں جیسا کہ آیت کریمہ میں ہے، دوسرا "المتکبر" کے صیغے کے ساتھ آیا  ہے۔ یہ خدا کے خوبصورت ناموں میں سے  ایک اور نام ہے۔ مزید کہا کہ "الکبیر" نام کے تین معنی ہیں: پہلا عمر میں بڑا ہونا ہے، دوسرا قدر ومنزلت اور مقام میں اعلیٰ اور ارفع ہونا ہے، اور تیسرا عظیم ہے، یعنی سائز میں بڑا ہونا ہے۔ ان تینوں معانی میں سے صرف دوسرا معنی ہی اس ذاتِ بالا کے لیے موزوں ہے جو کہ قدر ومنزلت اور مقام میں اعلیٰ اور ارفع ہونا ہے۔
 
 
آپ نے امام طیب پروگرام کی سترہویں قسط میں وضاحت کی کہ: پہلا معنی جو کہ عمر میں بڑا ہونا ہے، خدا تعالیٰ کے لیے تصور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کا تقاضا ہے کہ آپ کہیں: خدا نہیں تھا پھر وجود میں آیا  یا آپ کہیں گے  کہ وہ چھوٹا تھا پھر بڑا ہوگیا، اور یہ ایک ایسا تغیر ہے جو ذات الہی کے شایان شان نہیں ہے۔ خدا تعالی ازلی ہے اور اس کی کوئی ابتدا نہیں ہے۔
 
پھر دوسرا معنی جو کہ عظیم الجثہ ہونا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے لائق نہیں۔ کیونکہ یہ انسانوں سے مشابہت رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ اس سے پاک  ہے۔ لہٰذا، اس کے لیے "الکبیر" کا معنی یہ ہے کہ وہ ہر موجود سے متقدم  ہے اور اپنی ذات صفات اور افعال میں عظیم ہے۔ 
 
 
شیخ الازہر نے اس بات پر زور دیا کہ جو لوگ عربی زبان پر غور کرتے ہیں وہ اسے بہت متنوع اور بھرپور پائیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے لوگ بالخصوص نئی نسل کے نوجوان اسے کھو بیٹھے۔ ان کے عربی زبان کو ترک کرنے کا نتیجہ ان کی فکر اور ثقافت میں شدید کمزوری کی صورت میں ظاہر ہوا۔ انہوں نے انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنے میں بہت سے لوگوں کی موجودہ مبالغہ آمیز دلچسپی پر حیرت کا اظہار کیا، جو کہ عربی زبان کے مقابلے میں ایک ناقص زبان کی طرح  ہے، جس (عربی) میں دیگر زبانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ثروت اور تنوع ہے۔ اس بات پر زور دیا کہ زبان میں کمزوری کا مطلب شناخت کے تحفظ میں کمزوری ہے، انہوں نے تصریح کی کہ میں یہ تجربے سے کہتا ہوں کیونکہ میں نے فرانسیسی زبان سیکھی ہے، جب بھی میں نے اسے پڑھا، میں اس میں اور عربی کے درمیان بہت بڑا فرق دیکھ کر حیران رہ گیا۔ تاہم، دوسرے اپنی زبانوں کو فروغ دینے اور ان پر فخر کرنے کے خواہاں ہیں۔ ہمیں ہر جگہ فرانسیسی، انگریزی اور جرمن تدریسی مراکز ملتے ہیں، عربی تدریسی مراکز کے برعکس، جو بہت کم اور نایاب ہیں۔
 
 
امام  اکبر نے اس بات پر اپنی گفتگو کو ختم کیا کیا کہ زبان ایک فن ہے۔ اس میں کشش کے تمام عناصر موجود  ہیں، خاص طور پر چھوٹی  نسلوں کے لیے،  نہ صرف زبان بلکہ اس میں ثقافت، رسوم و رواج اور روایات کی بھی کشش ہے۔ جو کوئی زبان سیکھتا ہے وہ اس زبان کے لوگوں کی ثقافت بھی سیکھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زبانیں سیکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: " جس نے کسی قوم کی زبان سیکھی وہ  ان کے شر سے محفوظ ہو گیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مادری زبان پر غیر ملکی زبان کا غلبہ ہو جائے۔ اور وہی منتشر ہو جائے۔ اور ہمیں اپنے بچوں کو پہلے عربی زبان سکھانی چاہیے اور پھر دوسری زبانیں سکھانی چاہیں۔ اور ان کو چھوٹی عمر سے ہی قرآن پاک حفظ کروانا چاہیے۔ 
کیونکہ اس سے زبان مضبوط ہوتی ہے اور ان کی لسانی حس کو تقویت ملتی ہے۔
 

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2024