چھٹی قسط میں «الإمام الطيب»: شیخ الأزہر: اللہ کے نام "الودود" سے بندے کا وصف کرنے کا مطلب ہے: بندے کی اللہ کی اطاعت سے محبت اور اس کی معصیت سے نفرت۔

الإمام الأكبر أ.د: أحمد الطيب ١٢.jpg

شیخ الأزہر:
"اللہ کے نام «الودود» سے بندے کا حصہ اس بات میں تجسد پاتا ہے کہ وہ لوگوں کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔"

امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب، شیخ الأزہر نے کہا: "اللہ کا نام 'الودود' کا مطلب ہے: محبت کرنے والا، اور یہ ممکن ہے کہ بندے کو بھی اس نام سے وصف کیا جائے کیونکہ اللہ تعالی نے اسے اپنے اسماء میں شامل کیا ہے۔ بندے کا 'ود' اللہ کی اطاعت سے محبت اور اس کی معصیت سے نفرت ہے، جبکہ اللہ کا 'ود' اس کی محبت ہے جو اپنے بندوں کو اپنی اطاعت اور شکر گزاری کے لیے توفیق دیتا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ بندہ اللہ کے نام 'الودود' کے ساتھ دعا اور تضرع کر سکتا ہے، چاہے وہ مشکل میں ہو یا فائدہ کی حالت میں؛ کیونکہ یہ نام اس حالت سے ہم آہنگ ہے جس میں بندہ ہے یا جس کے لیے وہ اللہ سے دعا کر رہا ہے۔


شیخ الأزہر نے اپنے رمضان پروگرام «الإمام الطيب» کی چھٹی قسط میں بتایا کہ "اللہ کے نام 'الودود' کا بندے کے لیے حصہ اس میں ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس صفت کی بہترین مثال پیش کی، جیسے کہ احد کے دن جب آپ کی داڑھ  مبارک ٹوٹ گئی اور چہرہ مبارک زخمی ہو گیا تو آپ کے صحابہ بہت غمگین ہوئے اور کہا: 'اگر آپ ان کے خلاف دعا کریں تو بہتر ہوگا!'، تو آپ نے جواب دیا: "میں لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، بلکہ میں دعا کرنے والا اور رحمت دینے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں، اے اللہ! میری قوم کو معاف کر دے، کیونکہ وہ نہیں جانتے۔" یہ مقام انتہائی دشوار تھا اور صرف وہی شخص اس میں کامیاب ہو سکتا ہے جو 'ود' کی صفت سے متصف ہو۔
روایت ہے  کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اگر تم سبقت لے جانا چاہتے ہو تو ان لوگوں سے قطع تعلقی نہ کرو جنہوں نے تمہیں منقطع کیا ہے، ان لوگوں کو دو جنہوں نے تمہیں محروم کیا ہے، اور ان لوگوں کو معاف کر دو جنہوں نے تم پر ظلم کیا ہے"۔

شیخ الأزہر نے مزید کہا کہ "بندہ اس طرح کی صفات پر آہستہ آہستہ عمل کر سکتا ہے، خاص طور پر رمضان کے مہینے میں۔" انہوں نے امام احمد بن حنبل کے قول کی وضاحت کی: " کہ بندہ کو خوف اور امید کے درمیان  اللہ کی طرف بڑھنا چاہیے، ، اور بیماری کی حالت میں امید کو خوف پر ترجیح دینی چاہیے، جبکہ صحت کی حالت میں خوف کو امید پر ترجیح دینی چاہیے۔" انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دعا بندے کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ یہ بندے اور اللہ کے درمیان تعلق قائم کرتی ہے، اور اس کی اہمیت اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ پوری نماز دعاء ہے، سورت فاتحہ بھی دعاء ہے، اور سجدہ بھی دعاء ہے۔ یہ بندے کے اللہ تعالیٰ سے دعا کے ذریعے مسلسل جڑے رہنے کی اہمیت  پر دلالت ہے۔

خبروں کو فالو کرنے کے لیے سبسکرائب کریں

تمام حقوق امام الطیب کی ویب سائٹ کے لیے محفوظ ہیں 2025